مینار پاکستان کے سائے تلے جماعت اسلامی کا تین روزہ عظیم الشان اجتماع جاری ہے اور پہلے ہی روز جہاں مینارپاکستان کا وسیع و عریض میدان کم پڑتا دکھائی دے رہا ہے وہیں میڈیا کے تعصب کو بھی خوب ایکسپوزکر رہا ہے جو اس سے کہیں کم جلسوں کو گھنٹوں کی کوریج دیتا ہے مگر جماعت اسلامی کیلئے فقط چند منٹ ؟؟؟
لاہور میں جماعت اسلامی کے تین روزہ اجتماع کا آغاز ہو گیا ہے۔ ’اسلامی پاکستان ہی خوشحال پاکستان‘ کے نعرے کے تحت اس اجتماع میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مصر انڈونیشیا اور بھارت اور دوسرے کئی ملکوں سے بھی جماعت اسلامی کے کارکن اور رہنما شریک ہو رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ ’جماعت اسلامی پاکستان کی منظم دینی سیاسی اور سماجی جماعت ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اجتماع میں پاکستان کو بچانے اور خوش حال بنانے کا ایجنڈا پیش کریں گے۔ اجتماع میں 30 ملکوں سے 125 غیرملکی کارکن بھی شریک ہو رہے ہیں۔ لوگوں نے خود اس کے لیے پیسہ دیا ہے۔‘
کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ماضی میں احتجاج اور پریشر گروپ کی حد تک محدود رہنے والی جماعت اسلامی دھرنوں اور احتجاج کی سیاست کے دوران یہ اجتماع منعقد کر کے خود کو ایک نئی شکل میں ڈھالنے جا رہی ہے۔
تجزیہ کار اور معروف صحافی سلمان غنی کہتے ہیں: ’ماضی میں کہا جاتا تھا کہ جماعت اسلامی حکومت بنا نہیں سکتی صرف گرا سکتی ہے۔ اور گذشتہ ایک دہائی میں اس کی یہ حثیت بھی ختم ہو چکی تھی۔ لیکن اب نئی صورت حال میں جماعت اسلامی میں ایک نئی قیادت سامنے آئی ہے۔ جو ایک جارحانہ سیاسی حکمت عملی اپنانے جارہی ہے۔‘
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کئی ماہرین سمجھتے ہیں کہ عوام اس وقت موجودہ جمہوری نطام سے اکتا چکے ہیں۔ عوام نے ان جماعتوں سے بڑی توقعات وابستہ کی تھیں، لیکن یہ جماعتیں عوامی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکیں۔ ان کے مطابق ملک میں اس وقت سیاسی خلا ہے، جس میں عمران خان کی تحریک انصاف تیزی سے عوامی امنگوں اور خاص طور پر نوجوانوں کی ترجمان کے طور پر ابھر رہی ہے۔
اسی منظرنامے کو سمجھتے ہوئے جماعت اسلامی خود کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے حکمت عملی بنا رہی ہے۔ حالیہ سیاسی بحران میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی جانب سے ثالثی کی کوششیں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں، اور اب تین روزہ اجتماع میں عوامی مسائل سے متعلق ایجنڈا پیش کرکے جماعت اسلامی ایک نیا کردار اپنانے جا رہی ہے۔
کالم نگار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں: ’سراج الحق کہتے ہیں کہ وہ تحریک پاکستان کو دوبارہ سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے اور اس جذبے کو ہر وقت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ لوگوں کے مسائل کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ صحت تعلیم اور گورننس کے مسائل ہیں۔ اب صرف نظریاتی گفتگو سے لوگوں کو متوجہ نہیں کیا جاسکتا۔‘
صحافی سلمان غنی کے مطابق اب جماعت اسلامی اس حققیت کو سمجھ چکی ہے: ’ماضی میں جماعت اسلامی کا سارا روز تنظیمی سرگرمیوں اور لٹریچر پر تھا اور اس نے عوامی مشکلات پر کبھی دھیان نہیں دیا۔ لیکن اب سراج الحق کی قیادت میں جماعت اسلامی تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ اب وہ اپنی سیاست لوگوں کے مسائل کے حل سے منسلک کریں گے۔ اور اسی کی ضرورت ہے۔‘
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ جب سے سراج الحق جماعت اسلامی کے امیر بنے ہیں، جماعت اسلامی کے اندر اصلاحات کو عمل شروع ہو چکا ہے۔ سیاسیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ ’سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن اور سراج الحق کے انداز میں فرق نمایاں ہے۔ منورحسن نے اپنے دور میں غیر ضروری طور پر کئی تنازعے کھڑے کیے۔ وہ ایشوز پر زیادہ جذباتی نظر آئے، لیکن سراج الحق کے انداز میں ٹھہراؤ زیادہ ہے۔ وہ نرمی سے معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ نعروں سے آگے جانا چاہتے ہیں۔ اور دوسروں کی بات سننا چاہتے ہیں۔‘
تو کیا یہ جماعت اسلامی کے لیے موقع ہے کہ وہ خود کو اجتجاجی سیاست اور پریشر گروپ کی حثیت سے باہر نکال سکے، اور ایک نظریاتی مذہبی جماعت کے بجائے ایک مقبول عوامی جماعت بن جائے؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے خیال میں یہ کافی حد تک ممکن نہیں: ’ماضی میں بھی جماعت اسلامی انتخابی سیاست کرتی رہی ہے، لیکن جس طرح کی اس کی تنظیم ہے، یہ سیاسی طور پر کمزور ہی رہی ہے اور کمزور ہی رہے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ اپنے ورکروں میں تو مقبول ہوسکتی ہے اور مخصوص علاقوں کی مخصوص نشستوں پر کامیاب تو ہو سکتی ہے لیکن خاموش ووٹر کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی جب تک کہ یہ اپنے سیاسی ڈھانچے کو ازسرے نو ترتیب نہ دے۔‘