اس بات میں شک نہیں رہا کہ پاکستان دنیا میں معیشت اور سیاست کے میدان میں کھیلے جانے والے ایک بڑے کھیل کا شکار ہو چکا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں اکانومی کی جنگ لڑی جا رہی ہے‘ پاکستان کی سرزمین دنیا کی اہم ترین راہداری ہے‘ اگر سرد ممالک کو یہ راہداری استعمال کرنے کا موقع مل جائے تو پوری دنیا میں نیا تجارتی کلچر معرض وجود میں آئے گا اور طاقت کا محور پھر بدل جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں امریکا اور یورپ کا کھیل محدود ہو جائے، سوشلسٹ ممالک کو ابھرنے کا موقع ملے، طاقت کا توازن بدل جائے، اس وقت امریکا اور یورپ کی جانب سے بھرپور زور لگایا جا رہا ہے کہ سرد ممالک کو افغانستان اور پاکستان کی راہداری استعمال کرنے کیا موقع نہ ملے مگر ان سازشوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہو رہا ہے۔
کیا روس کبھی بھی گرم پانیوں کے ذریعے اپنی تجارت کا دائرہ وسیع نہیں کر پائے گا؟
کیا روس کا خلائی جنگ جیتنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا؟
کیا سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں امریکا کی برتری ہمیشہ قائم رہے گی؟
کیا سو شلزم، سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں مزید شکست خوردہ ہو رہا ہے؟
کیا پاکستان کی سرزمین کے ذریعے سرد ممالک کو بین الاقوامی تجارت کا موقع کھل کر نہیں مل سکے گا؟
کیا افغانستان ہمیشہ روس اور دوسرے ممالک کی تجارت کے لئے غیر محفوظ رہے گا؟
اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ممالک کی تمام تر توجہ افغانستان اور پاکستان پر مبذول ہے کہ یہ دونوں ممالک کسی بھی صورت مستحکم نہ ہو سکیں۔ پاکستان کی اہمیت افغانستان کے معاملے میں بہت زیادہ ہے کہ یہاں تقریباً سات سو کلو میٹر کی سمندری حدود اور کئی بندرگاہیں ہیں جبکہ افغانستان خشکی کا راستہ ہے۔ افغانستان سے گزر کر پاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعے
جا سکتی ہے۔
امریکا، یورپ اور ان کے حامی ممالک کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ اگر سرد ممالک کو گرم پانی کے ذریعے تجارت کا موقع مل گیا تو آئندہ برسوں میں طاقت کا توازن کس جانب جھک جائے گا، امریکا، یورپ اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی دوسرے ممالک افغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ چین کی بڑھتی ہوئی تجارت اور ابھرتی ہوئی معیشت بھی ان کے لئے بہت بڑا خطرہ بن رہی ہے۔
ان ممالک کو چین کے روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات سے بھی بڑا خدشہ پیدا ہو چکا ہے، انہیں اندازہ ہے کہ سوشلسٹ ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی قربت سے سرمایہ دارانہ نظام میں دراڑ پیدا ہو جائے گی اور کسی وقت یہ نظام زمین بوس بھی ہو سکتا ہے، اس وقت سرمایہ دارانہ نظام یہودیوںکی گرفت میں ہے۔ آج امریکا کی ترقی بھی ان کے مرہون منت ہے، یہودی تاجروں نے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور وہ سوشلسٹ ممالک کو محدود رکھنے اور سرد ممالک کو گرم پانی سے دور رکھنے کے لئے مکمل قوت اور صلاحیت استعمال کر رہے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس جنگ کے لئے ارض پاک کی سرزمین استعمال کی جا رہی ہے، یوں پاکستان دو نظاموں کی جنگ میں سینڈوچ بن چکاہے۔
امریکا اور یورپ نے تقریباً ایک صدی قبل ہی سوشلزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور خطرے کو محسوس کر لیا تھا خاص طور پر یہودیوں نے اس نظام کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ یہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کی ضد تھی۔ اسلام کو اس نظام سے کوئی خاص خطرہ نہ تھا کیونکہ اسلام میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ عیسائیت کو سرمایہ دارانہ نظام سے کوئی پرخاش نہیں تھی بلکہ امریکا میں یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ نظام جڑ پکڑ چکا تھا۔ ادھرجرمنی کے سوا یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی سرمایہ دارانہ نظام اپنے پنجے گاڑ رہا تھا۔ ہیگل کے نظریہ عمرانیات نے دنیا بھر کے دانشوروں اور راہنماؤں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
اس زمانے میں نیا تجارتی کلچر معرض وجود میں آیا۔ روس سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں دسترس حاصل کر چکا تھا۔ روس نے جب خلا میں پہلا مصنوعی سیارہ بھیجا تو یہود و نصاریٰ نے اسے سنجیدگی سے لیا اور وہ بھی اس میدان میں کود پڑے، روس اور امریکا میں خلائی دوڑ شروع ہو گئی مگر اس دوڑ کو جیتنے کے لئے بہت بڑے سرمائے کی ضرورت تھی۔ جب خلائی کشمکش شروع ہوئی تو امریکی معیشت واقتصادیات اور ٹیکنالوجی پر چھائے ہوئے یہودیوں نے امریکا اور اس کے حلیف ممالک کے ذریعے روس کو صرف اس کی حدود یا سرد پانی تک محدود رکھنے کی حکمت عملی تیار کی۔
انہوں نے گرم پانی کا دروازہ بند رکھنے کے لئے افغانستان کا میدان چنا اور روس کو افغانستان کی راہداری استعمال کرنے سے روکنے کی حکمت عملی تیار کی۔ کانگریس اور ہندوؤں کے تعصب کی وجہ سے جب مسلمانوں نے اپنے لئے الگ وطن حاصل کر لیا تو امریکا اور یورپ نے مکمل حکمت عملی تیار کی کہ روس کسی بھی طریقے سے افغانستان سے گزر کر پاکستان کی بندرگاہوں کو استعمال نہ کر سکے۔
پاکستان قائم ہونے کے بعد قائداعظم کی رحلت سے سازشیوں کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے کھل کر کام کرنے کا موقع مل گیا۔ آہستہ آہستہ تمام مخلص اور زیرک راہنماؤں کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ نااہل ، سازشی اور کرپٹ افراد کو ملک پر مسلط ہو گئے۔ ان سازشی راہنماؤں نے صرف اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے پر توجہ دی اور عوام کی اخلاقی تربیت نظر انداز کر دی۔ پاکستان کو ناخواندہ رکھا گیا پاکستانی عوام کو لاتعداد مسائل میں الجھا کر انہیں عقل و فہم اور شعور سے کوسوں دور کر دیا گیا۔ دنیا کا سب سے اہم محل وقوع رکھنے والا پاکستان محتاج بن کر رہ گیا۔ افغان جنگ سے قبل مذہبی جماعتوں کی پرورش بھی کی گئی۔
ان جماعتوں کو اسلام سے حقیقی خطرہ سوشلزم اور کمیونزم سے ہی نظر آتا تھا، چنانچہ جب روس نے اپنی تمامتر سفارتی کوششوں کی ناکامی کے بعد طاقت کے ذریعے گرم پانیوں تک پہنچنے کا ارادہ کیا تو یہ جماعتیں اور ان کے عسکری ونگز افغان جہاد میں روسی جارحیت کے خلاف استعمال ہونے لگے۔ امریکا اور اس کے حلیف ممالک نے ان پاکستانی مذہبی جماعتوں کے عسکری جتھوں کے ذریعے روس کو افغانستان میں شکست دی۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا۔ اس صورت حال میں چینی قیادت نے روسی قیادت کے ساتھ رابطے قائم کئے اور جنوبی ایشیا میں امریکا اور یورپ کی بالادستی ختم کرنے اور خطے میں سوشلسٹ بلاک کو مضبوط کرنے کے لئے بات چیت کی۔
ان ملاقاتوںمیں چینی حکام نے روسی قیادت کو گرم پانی تک افغانستان اور پاکستان کے ذریعے رسائی دینے کا بھی عندیہ دیا۔ روسی قیادت اور وسط ایشیائی ریاستوں کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ چین وہ واحد ملک ہے کہ جو پاکستان سے بات منوا سکتا ہے، انہیں اس بات کا بھی یقین تھا کہ چینی اثرورسوخ اور تعلقات کی وجہ سے وہ بذریعہ پاکستان گرم پانی تک تجارت کا دائرہ پھیلا سکتے ہیں، چنانچہ ایک راہداری کا تعین کیا گیا کہ جو افغانستان کے ساتھ ملنے والے وسط ایشیائی ریاستوں سے گزرتی ہوئی افغانستان اور پاکستان تک پہنچے گی۔ پھر پاکستانی بندرگاہوں بالخصوص گوادر بندرگاہ کے ذریعے وہ اپنا مال عالمی منڈی تک پہنچا سکیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی حکام نے روس اور چین کے مابین ہونے والے رابطوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا۔ جلد ہی انہیں یہ بھی احساس ہو گیا کہ کچھ وسط ایشیائی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ تعلقات گہرے ہوتے جا رہے ہیں، ان ریاستوں کے شہری بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان آنے لگے۔ ان ریاستوں سے تجارتی سامان بھی پاکستان آنے لگا۔ افغانستان کے بڑے حصے پر ملا عمر کا تسلط قائم ہو گیا، تاجکستان نے افغانستان کے ذریعے پاکستان کو بجلی فراہم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی۔
بظاہر یہی نظر آ رہا تھا کہ کھمبوں کے ساتھ ہی پاکستان تک پہنچنے کے لئے سڑک بھی تعمیر کی جائے گی یعنی کھمبوں اور سڑک کا روٹ ایک ہی ہو گا۔ بظاہر تو اس منصوبے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، پاکستان کو بھی محض راہداری کی مد میں پندرہ ارب ڈالر سالانہ ملنے کی توقع تھی اگر وسط ایشیائی ریاستیں بھی اس راہداری سے فائدہ اٹھاتیں تو مزید پانچ ارب ڈالر حاصل ہوتے۔
لیکن ہوا یہ کہ امریکی الیکشن کے بعد نائن الیون کا واقعہ ہو گیا جس کے نتیجے میں امریکی فوج کو افغانستان میں گھسنے کا موقع مل گیا اور راہداری کا منصوبہ التوا کا شکار ہو گیا۔ وسط ایشیائی ریاستوں کی پاکستان تک رسائی ختم کر دی گئی، ادھر نیٹو اور ایساف کی افواج نے بھارتی ایجنسیوں اور شہریوں کو افغانستان میں قدم جمانے کے لئے مواقع مہیا کئے۔
روس کا گرم پانی تک پہنچنے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ یہ نائن الیون کا واقعہ دوسرے لفظوں میں امریکا کے لیے فائدہ مند ہی ثابت ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راہداری کے فوائد کے علاوہ پاکستان کو اپنی مصنوعات بین الاقوامی منڈی میں فروخت کرنے کے لئے بہت مواقع ملتے اور گوادر کے آس پاس صنعتوں کا جال بچھ جاتا۔ بلوچستان اور پاکستان میں خوشحالی کی نئی لہر پیدا ہو جاتی، گوادر کو ’’اوپن فری‘‘ بندرگاہ کا درجہ ملنے سے یہ اس خطے کا تجارتی حب بن جاتا، وسط ایشیائی ریاستوں میں موجود تیل اور گیس بھی افغانستان اور پاکستان کے ذریعے بین الاقوامی مارکیٹ میں تقریباً آدھی قیمت میں دستیاب ہوتا‘ کہا جاتا ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں نے صرف پچاس ڈالر فی بیرل تیل بیچنے کا فیصلہ کیا تھا جو موجودہ بین الاقوامی قیمت سے نصف ہے۔
سب سے زیادہ فائدہ روس اور چین کی اکانومی کو پہنچتا۔ روس کو جیسے ہی تجارت کے مواقع ملتے اور انہیں زرمبادلہ حاصل ہوتا وہ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی پر رقم خرچ کرنے کے حامل ہو جاتے۔ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں وہ آج بھی امریکا پر فوقیت حاصل کر سکتے ہیں وہ صرف سرمائے کی کمی کی وجہ سے خلائی جنگ کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
امریکا اور اس کے حواریوں کو اس امر کا بخوبی احساس ہے، انہیں یہ بھی احساس ہے کہ اگر ایک دفعہ روس کو گرم پانی تک تجارت کا موقع مل گیا تو پھر امریکا کے لئے اپنی اجارہ داری اور گرفت قائم رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اگرچہ امریکا نے اب افغانستان میں اپنی دس ہزار فوج مستقل رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے ، بھارت کو بھی تھانیداری دی جا رہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ پاکستان کے ذریعے روسی تجارت کا خواب ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتے ہیں، انہیں یہ بھی علم ہے کہ پاکستان بھی محض مالی مشکلات کی وجہ سے بحران کا شکار ہے، اس لئے وہ ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور امریکا کی تمام شرائط قبول کرنے پر مجبور ہے۔
اگر گوادر پورٹ فنکشنل ہو گئی ،گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں انڈسٹری اور کارخانے قائم ہو گئے، پاکستان نے بلوچستان میں موجود معدنیات کے خزانوں سے خود فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو پاکستان کبھی بھی آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور امریکا کی ناجائز شرائط تسلیم نہیں کرے گا۔ چنانچہ ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی قوتوں نے پاکستان میں نئے کھیل کا آغاز کر دیا۔
وطن عزیز کو غیر مستحکم رکھنے کے پلان پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے، پاکستان کی اقتصادیات اور معاشیات کو خاص دباؤ کا شکار کر دیا گیا ہے، عوام کے مختلف طبقات کے درمیان خلیج وسیع کر دی گئی ہے، مختلف طبقات کے مابین بہت زیادہ عدم توازن پیدا ہو چکا ہے، اکانومی بھی عدم توازن کا شکار ہے۔’’گریٹ گیم‘‘ شروع ہو چکی ہے، تقریباً تمام پاکستانی کسی نہ کسی طرح اس گیم کا حصہ بن چکے ہیں۔
ملک میں انتشار اور افراتفری نظر آ رہی ہے، ہر طرف بے چینی، نفسا نفسی اور بے یقینی کا دور ہے، لوگ جتھوں اور گروہوں میںبٹ چکے ہیں، ان جتھوں اور گروہوں کی اپنی ایک سوچ ہے، پاکستانی قوم کے متحد نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی قوتوں اور ملک دشمن طاقتوں کو اپنے عزائم کی تکمیل میں بڑی آسانی ہو رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پوری قوم آپس میں متحارب ہے، ایسے حالات میں بڑے سے بڑا لیڈر بھی ملک و قوم کے مفادات کے لئے کھل کر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ کوئی راہنما کھل کر قوم کو اصل صورتحال سے آگاہ نہیں کر سکتا کہ وہ امریکا‘ نیٹو اور ایساف ممالک کے غیض و غضب کا شکار نہیں ہوناچاہتا، ایک کمزور ملک میں کسی بھی طاقت کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔
اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ملک کے دفاع کے ذمہ دار ادارے‘ سیاسی و جمہوری قوتیں‘ دانشور‘ اہل اقتدار و اہل اختیار اور عوام مل کر اپنی منزل کا تعین کریں، اپنی پالیسیاں واضح کر دیں، پوری قوم کو اعتماد میں لے کر منزل کا اعلان کیا جائے، سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو متحد کیا جائے، اپنی ترجیحات کا تعین کیا جائے اور قوم کو واضح طور پر آگاہ کیا جائے کہ ہمارا لائحہ عمل اور منزل کیا ہو گی؟ اس وقت پوری قوم اور ملک ابہام، غیر یقینی اور غیر واضح صورتحال سے دور چار ہے، ہمیں ایک قوم کی طرح اپنے راستوں کا تعین کرنا پڑے گا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے گوشے گوشے سے مختلف صدائیں بلند ہو رہی ہیں، ملک میں انتشار و خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن ہو رہا ہے۔ کراچی کے حالات دگر گوں ہیں، ہر طرف لاقانونیت‘ افراتفری‘ بے چینی‘ مفاد پرستی اور لوٹ کھسوٹ ہے، ساری قوم اضطراب اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔
مشہور صوفی بزرگ ابو انیس صوفی برکت علیؒ کہا کرتے تھے کہ ’’ایک وقت آئے گا کہ دنیا کے فیصلے پاکستان کی سرزمین سے ہوں گے۔‘‘ اگر پاکستان کا محل وقوع ذہن میں رکھا جائے اور اس ملک کے وسائل اور افرادی قوت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات بالکل ایک حقیقت نظر آتی ہے۔ مگر پاکستانی عوام بہت سادہ لوح ہیں، اپنی سادگی کی وجہ سے بہت جلد دوسری قوتوں کا چارہ بن جاتے ہیں، انہیں اپنی اہمیت کا احساس نہیں ہے، اپنے آپ کو ’’کیش‘‘ کروانا نہیں آتا، جس دن قوم اپنی منزل کا تعین کر کے متحد ہو گئی، اسی دن سے طاقت کا توازن تبدیل ہونا شروع ہو جا ئے گا، ہم فیصلہ کرنے والے بن جائیں گے۔
عالمی قوتیں بھی پاکستان کی خوشنودی کی محتاج ہوں گی، مگر یہ اس وقت ممکن ہے کہ جب پاکستانی رہنما عقل و فہم اور بصیرت کا مظاہرہ کریں گے‘ دنیا کودکھانا پڑے گا کہ پاکستانی ’’آلہ کار‘‘ نہیں ’’اعلیٰ‘‘ قوم ہے ۔ مگر پاکستانی راہنما اپنی انا کے اسیر ہیں وہ حالات کی نزاکت نہیں سمجھتے‘ انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ ’’دو‘‘ کی لڑائی میں ہمیشہ ’’تیسرا‘‘ فائدہ اٹھاتا ہے مگر ہم اتنے نااہل ہیں کہ دو عالمی قوتوں کی لڑائی میں فائدہ کی بجائے نقصان اٹھا رہے ہیں۔
باآسانی تجارت کی