سانحہ پشاور کا ذمہ دار سکول کا لیب اسسٹنٹ تھا
چارسدہ (18دسمبر 2014ء) آرمی پبلک سکول پر حملے میں دہشت گردوں کو ”اندرونی“ معاونت حاصل ہونے کا معاملہ سامنے آ گیا ہے اور انکشاف ہوا ہے کہ سکول کے لیب اسسٹنٹ دہشت گردوں کی معاونت کر رہا تھا۔ عینی شاہد طلباءکا کہنا ہے کہ لیب اسسٹنٹ دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے جن کی سربراہی میں دہشت گرد سکول میں داخل ہوئے اور قتل و غارت شروع کر دی۔ ان خیالات کا اظہار شہید طالب علم رضوان سریر کے نماز جنازہ کے بعد ان کے بھائی سلمان سریراور ان کے سکول میٹ نے چارسدہ پریس کلب کے صحافیوں سے بات چیت کر تے ہوئے کیا۔ شہید رضوان کے بھائی سلمان جو آرمی پبلک سکول پشاور میں 12ویں جماعت کا طالب علم ہے نے بتایا کہ شہید رضوان سریر وقوعہ کے روز بیماری کے باعث سکول جانا نہیں چاہتے تھے مگر والدہ نے سکول جانے پر مجبور کیاہم دونوں بھائی اکھٹے سکول گئے۔ فیڈرل بورڈ اور پشاور بورڈ کے طلباءآڈیٹوریم میں پیپر دے رہے تھے کہ صبح دس بجے کے بعد ایک فائر ہوا جس کے بعد اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی اور تمام طلباءاپنی سیٹوں کے نیچے دو گھنٹے تک لیٹے رہے جنہیں آرمی نے دو گھنٹے بعد ریسکیو کیا۔
عینی شاہد طلباءنے کہا کہ شدت پسند وں نے سکول پرنسپل طاہرہ قاضی کو جلا کر بربریت کی انتہا کر دی۔ نماز جنازہ میںموجود سیکنڈ ائیر کے طالب علم اظہر نے بتایا کہ 8 دہشت گرد جنہوں نے خود کش جیکٹ اور آرمی کی نیلی وردی پہنی ہوئی تھی دونوں ہاتھوں میں جدید اسلحہ لیکر اندر داخل ہو ئے اورسیدھے ایڈیٹوریم کا رخ کر کے اندھا دھند فائرنگ کرتے رہے۔ دہشت گرد باقاعدہ طالب علموں کو دیکھ کر ان کی موت کی یقین کرکے آگے بڑھتے رہے۔ دہشت گرد اردو ،عربی بول رہے تھے اور ساتھ ساتھ طلباءکو بتا رہے تھے کہ آج آپ مریں گے تو سیدھے جنت جائیں گے۔ ایک اور طالب علم نے بتایاکہ جوں ہی دہشت گرد سکول کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے والد سے رابطہ کرکے صورتحال سے آگاہ کیا جس پر والد نے ہدایت کی کہ چار پانچ طلباءدہشت گردوں کے گن کو اونچا کرکے ان پر قابو پائےں ورنہ بڑی تباہی ہو گی۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گرد اپنے ساتھ کپڑے لائے تھے جو کھڑے کھڑے انہوںنے تبدیل کئے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سکول کے جونیئر سیکشن کے لیب اسسٹنٹ دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔سکول میں الوداعی پارٹی تھی اور فوج کے ایک میجر خصوصی لیکچر دے رہے تھے۔ دہشت گردوں کو کس طرح پتہ چلا کہ تمام طلباءایڈیٹوریم میں جمع ہےں۔ دہشت گردوں کے سکول میں داخل ہونے سے پہلے لیب اسسٹنٹ سکول داخل ہوئے اورتمام دہشت گرد سیدھے آڈیٹوریم کی طرف آئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق آرمی سکول پر حملے کا منصوبہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں پانچ طالبان گروپوں کے 16 کمانڈروں نے افغانستان کے سرحدی صوبے کنٹر میں ملا فضل اللہ کی قیادت میں بنایا۔ ان کمانڈروں میں حافظ گل بہادر، شکیل خالد حقانی، حافظ سعید، حافظ دولت، قاری سیف اللہ، منگل باغ اور اس کا بیٹا بھی شامل تھے۔ خودکش حملہ آوروں، ابوذر، عمار، عمران، یوسف، قادری عزیز اور چمنے کو باڑہ کے علاقے شینی ڈھنڈ میں حملے کی تربیت دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گرد سکول پر حملے کے دوران فون پر کنٹر میں مسلسل رابطے میں تھے اور وہیں سے ہدایات لے رہے تھے جبکہ اپنی کارروائی سے مسلسل انگاہی بھی دے رہے تھے۔