اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق جون 2013 میں مجموعی قرضوں کی مالیت 16ہزار 338ارب روپے تھی جو ستمبر 2015تک بڑھ کر 20ہزار 706ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، اس طرح وزیر اعظم نواز شریف کے دور اقتدار میں قرضوں کی مجموعی مالیت میں 4368 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
جون 2013تک کے مجموعی قرضوں کے لحاظ سے پاکستان کا ہر شہری 90ہزار 700روپے کا مقروض تھا تاہم پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کا دعویٰ لے کر اقتدار میں آنے والی حکومت کے ابتدائی 27 ماہ کے دوران مقامی اور غیرملکی ذرائع سے بے تحاشہ قرض گیری کی وجہ سے اس بوجھ میں مزید 24ہزار روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے اور ہر پاکستانی شہری 1لاکھ 15ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے، حکومت کے ابتدائی 27ماہ کے دوران غیرملکی قرضوں اور واجبات کی مجموعی مالیت میں 900ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔
جون 2013تک مجموعی غیرملکی قرضے اور واجبات کی مالیت 6036 ارب روپے تھی جو ستمبر 2015تک بڑھ کر 6945.7ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، اس دوران حکومت کے مقامی ذرائع سے حاصل شدہ قرضوں میں 3194ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، جون 2013 میں مجموعی مقامی قرضوں کی مالیت 9520ارب روپے تھی جو ستمبر 2015 تک بڑھ کر 12ہزار 714.6 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ وفاقی حکومت قرضوں کو محدود رکھنے کے لیے 2005میں متعارف کرائے گئے فسکل رسپانسبلیٹی اینڈ ڈیبٹ لمیٹشن ایکٹ کی بھی مسلسل خلاف ورزی کررہی ہے۔
اس ایکٹ کے تحت مجموعی قرضوں کو جون 2013تک جی ڈی پی کے 60فیصد تک محدود کرنا تھا تاہم حکومت کی بڑھتی ہوئی قرض گیری کی وجہ سے یہ ہدف تاحال حاصل نہ ہو سکا، وفاقی حکومت کو قرضوں کا جی ڈی پی سے تناسب 72.7فیصد ورثے میں ملا جسے بمشکل کم کرکے 67.5فیصد تک ہی لایا جا سکا ہے۔
وفاقی حکومت قرضوں کی اصل رقم سے ڈیڑھ گنا زائد رقم سود کی مد میں ادا کررہی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ 27ماہ کے دوران غیرملکی قرضوں کے پرنسپل اور اس پر سود کی مد میں 3ہزار 945ارب روپے کی ادائیگیاں کی ہیں جن میں سے قرض کی اصل رقم کی مد میں 1ہزار 19ارب روپے جبکہ قرضوں پر سود کی مد میں 2ہزار802ارب روپے جبکہ واجبات پر سود کی مد میں 125ارب روپے کی ادائیگیاں کی ہیں۔
Reference: Express