Yasser Arafat’s empty pistol secret
تیرہ نومبر 1974 نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں اس دن سخت سیکورٹی تھی۔
فلسطین کی آزادي کے لیے سرگرم تنظیم (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلینری اجلاس میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
پہلی بار کسی ملک کی قیادت نہ کرنے والےکسی شخص کو یہ اعزاز حاصل ہونے والا تھا۔
اس زمانے میں عرفات کے قریبی اور بعد میں فلسطینی انتظامیہ کے پہلے وزیر خارجہ نبیل شاط کو وہ دن ابھی تک یاد ہے۔
وہ کہتے ہیں ’عرفات نے پہلی بار وہ چیز تسلیم کی تھی جو انھوں نے پہلے کبھی بھی قبول نہیں کی تھی۔ انھوں نے اپنی داڑھی مکمل طور پر صاف کرا دی تھی اور نیا سوٹ بھی پہنا تھا۔ خاكي سوٹ پر بہت سلیقے سے پریس کی گئی تھی اور وہ بالکل چمک رہے تھے۔‘
اس دن عرفات نیویارک ہوائی اڈے سے ہیلی کاپٹر سے براہ راست اقوام متحدہ کے صدر دفتر پہنچے تھے۔
ٹھیک اسی وقت کاروں کا ایک قافلہ ایسٹوريا ہوٹل کی طرف روانہ ہوا تھا تاکہ عرفات کے مخالفین کو یہ لگے کہ انھیں کار کے ذریعہ اپنے ہوٹل لے جایا جا رہا ہے۔
’شاخ زیتون‘
اس دن عرفات نے اپنی تقریر کا اختتام دو یادگار جملوں سے کیا۔ انھوں نے کہا ’میں یہاں زیتون کی شاخ اور مجاہد آزادی کی بندوق لے کر آیا ہوں۔ میرے ہاتھ سے زیتون کی اس شاخ کو گرنے مت دیجیے۔‘
اگلے دن یہ تقریر دنیا کے ہر بڑے اخبار کی سرخی بنی اور اس تقریر کے نو دن کے اندر اندر اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد نمبر 3237 منظور کر کے پی ایل او کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دے دیا۔
عرفات چھوٹے قد کے شخص تھے۔ صرف پانچ فٹ چار انچ یا شاید اس سے بھی کم۔ ان کی شکل ایسی نظر آتی تھی گویا انھیں فوری طور نہانے کی ضرورت ہے۔
بھارت کے سابق سفارتکار اور اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل چنمے گریخان کو ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا تھا۔
وہ کہتے ہیں: ’عرفات سے میری کئی بار ملاقات ہوئی ۔۔۔ کہہ سکتے ہیں ۔۔۔ سینکڑوں بار، کیونکہ میں اقوام متحدہ کی طرف سے غزہ میں تعینات تھا۔ وہ بہت چارمنگ ہو سکتے تھے اگر وہ چاہتے۔ ان کی چھوٹی داڑھی ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ فوجی لباس میں ہوتے تھے۔‘
’وہ سیدھے سادھے انسان تھے۔ لیکن جہاں تک فلسطینی تحریک یا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بات تھی اسے وہ بہت سنجیدگی سے لیتے تھے اور شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔‘
گریخان کہتے ہیں کہ ’انھوں نے بہت دیر سے شادی کی۔ پہلے تو کہا کرتے تھے کہ ان کی شادی تو فلسطین سے ہے۔ بعد میں انھوں نے صوحہ سے شادی کی۔
’صوحہ عیسائی تھیں، جبکہ عرفات سنی مسلمان۔ کہتے ہیں کہ صوحہ عرفات کو بہت چاہتی تھیں۔ ان کی ایک بچی بھی تھی جو اب بڑی ہو گئی ہو گی۔‘
وہ غزہ میں بہت معمولی اور چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے، جس میں دو منزلیں تھیں۔ عرفات پہلی منزل پر رہتے تھے اور گراؤنڈ فلور پر ان کی بیوی رہتی تھیں اپنی بچی کے ساتھ۔
خالی پستول
عرفات کی سوانح عمری لکھنے والے ایلن ہارٹ لکھتے ہیں کہ ’عرفات چاہے جہاں بھی ہوں، کچھ بھی کر رہے ہوں، یا کسی کے بھی ساتھ ہوں ۔۔۔ وہ ایک جگہ سکون سے نہیں بیٹھ سکتے تھے۔
’وہ دو شفٹ میں سویا کرتے تھے۔ صبح چار بجے سے سات بجے تک اور شام کو چار سے چھ بجے ۔۔۔ اس لیے آدھی رات کے وقت عرفات اپنی بہترین فارم میں رہا کرتے تھے۔‘
گریخان کہتے ہیں ’جب بھی ان سے ملنے کو کہو، تو کبھی بھی منع نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ رات کو 12-11 بجے ہی ملتے تھے اور رات کو ہی وہ سب سے زیادہ الرٹ رہتے تھے۔‘
عرفات ہمیشہ اپنی کمر میں پستول لٹکا کر چلتے تھے۔ جب وہ پہلی بار اقوام متحدہ میں تقریر کرنے گئے تو ان سے کہا گیا کہ آڈیٹوریم میں ہتھیار لے جانے کی ممانعت ہے۔
سمجھوتہ اس بات پر ہوا کہ وہ اپنی خاكي وردی پر پستول کا ہولسٹر تو لگائے رہیں گے، لیکن اس میں پستول نہیں ہوگی۔
بھارت کے مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر سیتارام یچوری کو ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا تھا۔
یچوری بتاتے ہیں ’عرفات کو بھی فیدل كاسترو کی طرح زور سے گلے لگانے کی عادت تھی۔ ایک بار قاہرہ میں جب وہ مجھ سے گلے ملے تو میرے پاس ان کی کمر پر بندھی پستول کو نکال لینے کا بہت اچھا موقع تھا۔ میں نے ان سے کہا بھی کہ آپ ہوشیار کیوں نہیں رہتے۔ کوئی یہ کام کر سکتا ہے۔
’اس پر انھوں نے کہا کہ ایک راز کی بات بتاؤں، اس پستول میں کوئی گولی نہیں ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پھر آپ پستول کیوں رکھتے ہیں؟ اس پر عرفات نے کہا کہ کیونکہ میرے پاس پستول ہے کئی لوگ جو مجھ پر گولی چلانا چاہتے ہیں، وہ ایسا کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔‘
’بڑی بہن’
یاسر عرفات اپنے ہوائی سفر کو بہت خفیہ رکھتے تھے اور میزبان ملک کو پہلے سے نہیں بتایا جاتا تھا کہ وہ وہاں آنے والے ہیں۔ ان کا اکثر بھارت آنا ہوتا تھا۔
چنمےگریخان یاد کرتے ہیں: ’جب بھی عرفات یہاں آتے تھے پہلے سے ہمیں بتاتے نہیں تھے۔ ایک دو گھنٹے پہلے ہی خبر آتی تھی کہ وہ آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اندرا گاندھی انھیں ہمیشہ ریسيو کرنے ہوائی اڈے پر جاتی تھیں۔ وہ ہمیشہ اندرا گاندھی کو ’مائی سسٹر‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
میں ہندوستان میں جب غیروابستہ ممالک کا سربراہی اجلاس ہوا تو وہ اس بات پر ناراض ہو گئے کہ ان سے پہلے اردن کے شاہ1983 کو تقریر کرنے کا موقع دیا گیا۔
بھارت کے سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ اس کانفرنس کے جنرل سکریٹری تھے۔
نٹور سنگھ کہتے ہیں ’اس کانفرنس میں صبح کے سیشن میں فیدل كاسترو صدر تھے۔ اس کے بعد اندرا گاندھی صدر تھیں۔ صبح کے سیشن کے بعد میرے ڈپٹی ستتي لمبا میرے پاس دوڑے آئے اور کہنے لگے کہ بہت بڑی آفت آ گئی ہے۔ یاسر عرفات بہت ناراض ہیں اور فوری طور پر اپنے جہاز سے واپس جانا چاہتے ہیں۔ میں نے اندرا جی کو فون کیا اور کہا کہ آپ فوراً وگیان بھون آ جایے اور اپنے ساتھ فیدل كاسترو کو بھی لیتی آئيے۔
’كاسترو صاحب آئے اور انھوں نے فون کر کے یاسر عرفات کو بلا لیا۔ انھوں نے عرفات سے پوچھا کہ آپ اندرا گاندھی کو اپنا دوست مانتے ہیں کہ نہیں۔ عرفات نے کہا، دوست نہیں ۔۔۔ وہ میری بڑی بہن ہیں۔ اس پر كاسترو نے تپاک سے کہا تو پھر چھوٹے بھائی کی طرح برتاؤ کرو اور کانفرنس میں حصہ لو۔‘
عرفات مان گئے اور شام کے سیشن میں حصہ لینے کے لیے پہنچ گئے۔