آج میں آپ کو اپنے محلے کے چند مصلحین و مفکرین سے ملواتا ہوں۔انمیں سے ہر ایک بلاشبہہ ملک و سماج کا خیرخواہ ہے ۔
یہ ہیں رفیق ہیئر ڈریسر صاحب۔ ان کا فلسفہِنجات بہت سادہ ہے۔ یعنی اس ملک کو ایک خیمنی کی ضرورت ہے جو تمام کرپٹ افسروں،ڈھیلے جنرلوں، ڈاکو سیاستدانوں اور حمید کانسٹیبل کو گولی مار دے جو پچھلے پانچ برسسے رفیق نائی کے سالے کے مکان پر قابض ہے ( حمید کانسٹیبل ایس پی صاحب کی آنکھ کاتارہ ہے اور ایس پی صاحب کی جونئیر جج صاحب سے دعا سلام ہے اور جونئیر جج کے پاسرفیق نائی کے سالے کی فائل پچھلے چار برس سے پڑی ہے )۔
اور ان سے ملیے۔ عزیز ڈرائی کلینر۔ خود بھیپنج وقتہ نمازی ہیں اور سال میں دو تین بار دکان بیٹے کے حوالے کرکے تبلیغ پر بھیجاتے ہیں۔ان کا فلسفہِ نجات یہ ہے کہ جب تک آدمی خود کو حرص و طمع ، جھوٹ اور رزقِحرام سے پاک نہیں کرے گا اور بہو بیٹیوں کی شرم نہیں کرے گا۔ تب تک خدا بھی انحریصوں، جھوٹوں، حرام خوروں اور بے غیرتوں کی نہیں سنےگا۔ بھلے آپ کتنے ہی دھرنے دےلیں۔ ( محلے کے چند بزرگ کہتے ہیں کہ عزیز دھوبی کی جوانی میں اتنی دہشت تھی کہ ایسایچ او بھی اچھو پائی جان کہتے ہوئے کرسی سے کھڑا ہوجاتا تھا۔ایک دن اچھو آپ سے آپہی تائب ہو کرعزیز ڈرائی کلینر ہوگیا ۔ابھی پچھلے سال ہی تو قتل کے پانچویں اورآخری مقدمے سے بری ہوا ہے )۔
اور آپ ہیں اکھنوری دوا خانے والے حکیم نور محمد ۔آپ کا خیال ہے کہجو کچھ بھی اچھا برا ہو رہا ہے سب اوپر والے کی منشا ہے۔وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتاہے جس کے دل پر چاہتا ہے مہر لگا دیتا ہے۔ جیسے آدمی بدقسمتی اور خوش قسمتی کےدائروں میں داخل ہوتا نکلتا رہتا ہے اسی طرح قومیں بھی ان دائروں میں نہ اپنی مرضیسے داخل ہو سکتی ہیں نہ نکل سکتی ہیں۔اس لیے اپنی ناقص عقل لڑانے کے بجائے خدا کارحم طلب کرتے رہو۔( حکیم صاحب کا اکلوتا بیٹا ڈیڑھ برس پہلے ٹارگٹ کلنگ کا شکارہوگیا۔ تب سے حکیم صاحب چپ چپ سے رہنے لگے ہیں۔کبھی کبھی بہت زور دینے پر ہی کچھ کہتے ہیں)۔
طالب قصائی (کسی زمانے میں بھٹو صاحب کاجیالا تھا ) ویسے تو دھیمے مزاج کا آدمی ہے پر جب وہ دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں میںچھری پھنسا کر آرمی بینڈ ماسٹر کی اسٹک کی طرح تیزی سے گھماتا ہے تو سب اس کی باتکو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ طالب قصائی کا نظریہ ہے کہ یہ قوم خود کو بھیڑ بکری سمجھنےلگی ہے اور بھیڑ بکریوں میں کوئی لیڈر پیدا نہیں ہوتا۔ کوئی بھی انہیں ہنکار سکتاہے اور سب چھری تلے آنے تک میں میں بھیں بھیں ہی کرتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ہماری کھال,سری ، پائے، اوجھڑی ، آنتیں ، چیچھڑے ، بال سب بک جاتے ہیں۔ جب تک زندہ ہیں بس چارہ ہی ملے گا۔ جس دن ان بھیڑبکریوں نے اپنے سینگ پہچان لیے میرے جیسے قصائی کی دکانبند ہوجاوے گی۔
اور یہ ہیں حضرت مولانا فیضِ عالم۔ جب محلےکی مسجد کمیٹی نے انہیں خادم سے موزن اور موزنسے پیش امام کے منصب پر فائز کیا تبسے ان کے افکار بھی ہویدا ہونے لگے۔ مولانا کا نظریہ یہ ہے کہ جب تک تمام مسلمان (یعنی سنی ) اپنے فروعی اختلافات بالائے طاق رکھ کے ایک رہنما ( یعنی مولانا فضلالرحمان ) اور ایک نظریہ ( یعنی دیوبند ) نہیں اپنائیں گے تب تک پاکستان اسی طرحاغیار کے پروردہ سازشیوں ( یعنی بلدیہ کے کلرک کلبِ عباس جعفری اور سکول ماسٹر مرزاتاج احمد وغیرہ ) ، امریکی ایجنٹوں ( یعنی محلے کا خاکروب نذیر مسیح ) اور بھارتیفتنہ پردازوں کے نرغے میں رہے گا ( یعنی کنہیا لال کلاتھ مرچنٹ ۔جو مولانا کو برسوںسے لٹھا ادھار دے رہا ہے اور کبھی کبھی دبا دبا تقاضا بھی کردیتا ہے )۔
بیشتر قومی رہنماؤں کی طرح میرے محلے کے یہمفکر و مصلح بھی کوئی بہت زیادہ پڑھے لکھے نہیں اور نہ ہی کسی شے کے بارے میں بہتزیادہ جاننا یا سر کھپانا چاہتے ہیں۔ مگر سب کے سب صاحبِ نظریہ ہیں۔ جن پر قسمتمہربان ہوئی وہ کسی سیاسی جماعت کے قائدین ہو گئے یا پارلیمنٹ میں بیٹھ گئے، فوجی وسول افسر بن گئے یا میڈیا میں چلے گئے۔ جو قسمت کے ہیٹے رہ گئے وہ رفیق ہیئر ڈریسر،عزیز دھوبی ، حکیم نور محمد ، طالب قصائی اور مولانا فیضِ عالم ہی رہ گئے۔ بس اتنی
سی بات ہے۔