Har Pareshani Main Pareshan Na Hun
آدم گوپنک کئی سالوں سے اپنی پریشانیوں کے حلتلاش کر رہے ہیں۔
اب ایبولا ایک ایسی بیماری ہے جس کے بارے میںیقیناً پریشان ہونا جواز بنتا ہے۔ یہ ایک خوفناک اور انتہائی متعدی مہلک بیماری ہے۔ میری پریشانیوں کی فہرست میں یہ ایک بڑی فکر ہے کیونکہ میری دیگر پریشانیاں اس سے کم اہم ہیں، مثلا کیا چیلسی کے ڈیاگو کوسٹا مانچسٹر یونائیٹڈ میں کھیلنے کے لیے فٹہیں یا نہیں۔
انتہائی قسم کی بے چینی نیو یارک کی شناختسمجھی جاتی ہے اور بلا وجہ کی اداسی پیرس کی پہچان۔
ایک طویل عرصے کے بعد مجھے بڑھتی ہوئی بےچینی کے کئی قسم کے حل ملے ہیں، جو میں آپ کو بتاؤں گا۔جدید لوگوں کوچار مختلف قسم کی بےچینیاں ہیں اور ہر بے چینی اپنی تشخیص کے ساتھ آتی ہیں۔ ان فکروں کو ہم تباہ کن بے چینی، دائمیپریشانی، بیرونی اثرات کی وجہ سے پریشانی اور وجود کی پریشانی کے نام دے سکتے ہیں۔آئیے انہیں ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں۔
تباہ کن بے چینی کبھی بھی اچانک کسی بُرےواقعے کے خدشے سے ہوتی ہے۔ جیسے کہ جہاز گرجائے گا یہ آپ کی بس میں دیشتگرد بم پھاڑسکتا ہے۔ اس قسم کے خوف کا سب سے بہترین حل مجھے میں نے تاش کے کھیل سے سیکھا۔ایک پیشہ ور تاش کے کھلاڑی سے میں نے ایک بڑیاہم بات سیکھی اور وہ یہ کہ تاش میں دھوکا دینے والے کو پتوں کے اعداد و شمار اورتمام امکانات اچھی طرح جان لینے چاہیں۔
اس چال کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ میں انچیزوں کے مثبت اثرات کے بارے میں سوچنے لگا بجائے اس کے کہ میں منفی اثرات کے بارےمیں سوچتا۔جب آپ اپنے خوف کو خواہشات میں تبدیل کریں گے تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہڈر حقیقت سے کتنے دور ہے۔
دائمی پریشانی سب سے بری قسم کی پریشانی ہےکیونکہ ایک پریشانی ختم ہونے پر دوسری شروع ہو جاتی ہے۔ کل کام سے نکال دیا جاؤں گا کرایہ یا قرض واپس نہیں کر سکوں گا، بچوں کی سکول کی فیس کا کیا ہوگا۔پریشانیوں کی یہ فہرست کبھی ختم نہیں ہوتی۔یہ پریشانی اتنی بُری ہے کہ اس سے متاثر شخص اکثر صرف ادوایات سے ہی ٹھیک ہو سکتےہیں۔
لیکن اس بیماری کو ہم انسانی فطرت، اورانسانی خواہشات کا ایک پہلو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ خود تجدیدِ فکر ہم انسانوں کی شکارینوعیت کی میراث ہے. شیر بھی بے چینی سے بھرپور درندے ہیں – ان کی آنکھوں میں دیکھیں
تو آپ کو عظمت نہیں بلکہ ایک پریشانی نظر آئےگی۔ کہیں مجھے زیبرے نے دیکھ تو نہیںلیا؟ میں اس کے کتنے قریب آگیا ہوں؟ کیا مجھے اب حملہ کر دینا چاہیے؟